حوزہ نیوز ایجنسی I جنین اور علاجی اسقاطِ حمل (Abortion) سے متعلق مسائل طبی اور اخلاقی لحاظ سے نہایت پیچیدہ ہیں۔ اس استفتاء میں دو اہم شرعی سوالات پر گفتگو کی گئی ہے، جو اُن صورتوں میں پیش آتے ہیں جب طبی ماہرین کے مطابق جنین میں شدید جینیاتی یا جسمانی نقص پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی ممکن نہیں رہتی، لہٰذا اسقاطِ حمل کو ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔
ایسے نازک اور دشوار حالات میں، غسلِ میّت (مسِ میّت کے احکام) اور دیت سے متعلق شرعی رہنمائی جاننا دیندار خاندانوں کے لیے ضروری اور مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اسی سلسلے میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای سے اس موضوع پر ایک استفتاء کیا گیا، جس کا جواب ان کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور وہ دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: جینیاتی مسئلے کی وجہ سے جنین (بچہ) میں پانی کی کمی اور حرکت ختم ہو گئی، اور ماں کی تمام کوششوں اور علاج کے باوجود ڈاکٹر کی تشخیص پر اسقاطِ حمل (Abortion) کرنا پڑا۔ ایسی صورت میں:
1. کیا غسلِ مسِ میّت ماں پر واجب ہے؟
2. کیا ماں یا باپ پر دیت (خون بہا) یا کوئی اور شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
جواب:
1. اگر جنین کم از کم چار ماہ کا تھا اور مرا ہوا سقط کیا گیا ہو، تو ماں پر غسلِ مسِ میّت واجب ہے۔
لیکن اگر بچہ زندہ حالت میں سقط ہوا اور بعد میں فوت ہوا، تو ماں پر غسلِ مسِ میّت واجب نہیں۔
2. اگر جنین میں روح آ چکی تھی (یعنی چار ماہ یا اس سے زیادہ عمر کا تھا)، تو احتیاط واجب کے مطابق اس کی دیت لازم ہے، اور یہ دیت اس شخص پر واجب ہے جس نے اسقاط کا عمل انجام دیا۔
لیکن اگر جنین پہلے ہی مردہ تھا اور اسی حالت میں سقط کیا گیا، تو اس صورت میں دیت واجب نہیں۔









آپ کا تبصرہ